Thursday, June 16, 2011

توبہ کی ضرورت

دورِ حاضر میں امّتِ مسلمہ ذلّت و رسوائی کے جس گڑھے میں گری ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ہے، ہم نے اللہ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ بظاہر تو ہم کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کو مانتے ہیں اسلامی شریعت کو مانتے ہیں مگر عمل ہمارا اس کے برعکس ہوتا ہے چاہے اجتماعی طور پر اس کا مشاہدہ کریں یا انفرادی ۔ آج ہم کافروں کے ہاتھوں اپنے اعمال کے باعث ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ ہم ہی ایسے ظالم اور ناشکرے ہیں کہ اپنے اللہ سے اور اس کے احکام سے منہ موڑ رکھا ہے اور دنیا کی ختم ہوجانے والی فانی اور نفسانی لذات میں محو ہوگئے ہیں اور اس میں اتنا مشغول ہوچکے ہیں کہ نہ صرف اپنے رحیم و کریم مالک کی نافرمانیاں کررہے ہیں بلکہ اس کے بندوں کے حقوق بھی غضب کرنے کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں ۔ خدارا غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ کتے کو بھی جہاں سے ایک وقت روٹی مل جائے تو وہ اْس در کا وفادار بن کر رہتا ہے۔ لیکن ہم نے کتنی وفا کی اپنے مالک سے جو ہمیں کھلا رہا ہے، پلا رہا ہے، سْلا رہا ہے، ان گنت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز آجائیں۔ وہ تو ایسا رحیم و کریم رب ہے کہ فرما رہا ہے ’’ اے میرے بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، خدا کی رحمت سے نااْمید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (زمر: ۵۳)۔ دیکھیں کہ کس محبت سے مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔ اگر ہم اب بھی ایسے رب کو بھلا دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اور کون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کیا اب بھی مومنوں کے لئے یہ وقت نہیں آیا کہ اْن کے دل خدا کی یاد سے نرم ہو جائیں۔‘‘(الحدید:۱۶)۔
آج ہم گناہوں اور فتنوں کی جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اْس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے توبہ۔ اللہ رب العزّت کا ارشادِ ہے ’’مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا‘‘ (تحریم:۶۶)۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ سے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔‘‘ اب ہم ذرا اپنی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ و استغفار کی کتنی ضرورت ہے‘ جبکہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم جن سے بڑھ کر کوئی نیک اور تقویٰ والا نہیں ہوسکتا وہ فرما رہے ہیں۔
توبہ سے روکنے کے لئے عام طور پر نفس جو کہ شیطان کا ایجنٹ ہے دو طرح کی پٹّی پڑھاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ابھی تو بڑی عمر پڑی ہے، ابھی توجوان ہیں، ابھی تو ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں، مزے کرو، بعد میں توبہ کر لیں گے۔ تو سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موت کے وقت کی کسے خبر ہے‘ ممکن ہے اگلے لمحے موت سر پر کھڑی ہو اور دوسرے توبہ کی توفیق بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ آج اگر دل میں توبہ کا خیال پیدا ہو رہا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا پیغام ہے۔ اس کو غنیمت جانیں اور آج ہی فوراً اس پر عمل کر لیں، کیا خبر کل یہ توفیق حاصل ہو یا نہ ہو۔
دوسری پٹی نفس یہ پڑھاتا ہے کہ تم نے تو اتنے گناہ کئے ہیں کہ تمہاری بخشش ہو ہی نہیں سکتی۔ یا تم گناہ تو چھوڑ نہیں سکتے اس لئے توبہ سے کوئی فائدہ نہیں۔ایک بات کا جواب تو ہمیں اس حدیثِ قدسی سے مل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’جو شخص ساری زمین بھر کر گناہ کر لے اور پھر میرے پاس آجائے بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کو اتنی ہی مغفرت عطا کروں گا جتنے اس کے گناہ تھے۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی‘‘۔
ابھی بھی وقت ہے آئیے ہم سب مل کر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں، اپنے اللہ کو راضی کر لیں۔ آج ہمیں چھوٹے بچوں سے سبق لینا چاہیے جنہیں کوئی بھی تکلیف پہنچے وہ صرف رونا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی سے ہمارا کام بنے گا۔ آج ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اپنے رب کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں اور توبہ کریں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ توبہ کے بعد دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ جتنے غلط کام ماضی میں کئے ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ یعنی جو فرائض واجبات، نمازیں، روزے، زکوٰۃ، رہ گئے ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں اور اگر کسی کی کوئی مالی یا جانی حق تلفی کی تو اس کا ازالہ کریں یا کسی کو ناحق تکلیف پہنچائی تو اْس سے معافی مانگیں۔ اور توبہ کے بعد پھر ہر قسم کے گناہ سے بچیں۔ اگر کبھی نادانی سے غلطی ہو جائے تو پھر فوراً توبہ کرلیں۔ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین

0 تبصرے:

Post a Comment