Thursday, June 16, 2011

پردہ امر فطری اور غیرت کا تقاضہ ہے


فرمایا کہ پردہ ایسی چیز ہے کہ اگر شریعت بھی نہ تجویز کرتی تب بھی فطری امر اور غیرت کا مقتضاء ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے ایک شخص نے شبہ کیا کہ پردہ کا ذکر کونسی آیت یا حدیث میں آیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ آپ جو سو دوسو کے نوٹ جاکٹ کی جو سب سے اندر کی جیب ہے اس میں رکھتے ہیں اور بڑی حفاظت کرتے ہیں یہ کونسی حدیث میں آیا ہے۔ کیا عورت کی قدر آپ کے نزدیک نوٹ کے برابر بھی نہیں ہے۔ افسوس ہر وز اس بے پردگی کی بدولت نئے نئے شرمناک واقعات سننے میں آتے ہیں مگر پھر بھی ہوش نہیں آتا۔ ابھی ایک اخبار میں دیکھا ہے کہ حیدرآباد میں ایک باغ عامہ ہے۔ وہاں ایک رئیس زادی زیب و زینت کے ساتھ ٹہل رہی تھی اسے بدمعاشوں نے چھیڑنا شروع کیا۔ وہ عورتوں کے غول کی طرف بھاگی وہاں بھی پناہ نہ ملی۔ تو پولیس نے بچایا۔ اور لیجئے ایک جینٹلمین جنہوں نے نیا نیا پردہ توڑا تھا وہ اپنی بیگم کو بغرض تفریح منصوری پہاڑ لے گئے اور تفریح کے لیے اس سڑک پر گئے جہاں بڑے بڑے آفیسر انگریزوں کے بنگلے تھے۔ وہاں ایک کوٹھی کے سامنے سے گزرے جو کسی بڑے افسر کی تھی اور تین گورے پہرے پر تھے ان کو دیکھ کر انہوں نے کچھ آپس میں گفتگو کی اور ایک ان میں سے چلا اور ان کی بیگم کا ان کے ہاتھ میں سے ہاتھ چھڑا کر ایک طرف لے گیا اور اسے خراب کرکے لے آیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے نے بھی یہی عمل کیا اور یہ اپنا سا منہ لے کے چلے آئے (جامع کہتا ہے کہ یہ شخص علاوہ بد دین ہونیکے حد درجہ بے غیرت بھی تھا جو ایسی بے غیرتی پر اف نہ کی دیندار ہوتا تو ان تینوں کو فنا فی النار کرکے خود جام شہادت پیتا) ہمارے حضرت نے مجمع کی طرف مخاطب ہوکے فرمایا۔ بس جی لوگوں کو شرم و غیرت نہیں رہی یہ تو شریعت کی رحمت ہے کہ اس کا بھی حکم دے دیا۔ باقی غیرت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ وہ تو ایک قسم کی محبوبہ ہوتی ہے۔ عاشق کب چاہتا ہے کہ میرے محبوب پر کوئی دوسرا نظر ڈالے۔ شاہ قلندر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎
غیرت از چشم برم روی تو دیدن ندہم
گوش رانیز حدیث توشنیدن ندہم
گریباید ملک الموت کہ جانم بیرد
تانہ بینم رخ توروح رمیدن ندہم
ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت پردہ میں بھی تو ایسے قصے ہوجاتے ہیں۔ پھر پردہ سے کیا فائدہ ہوا۔ فرمایا سبحان اﷲ جب اول تعلق ہوا ہے تو بے پردگی ہی سے ہوا ہے۔ وہ عورت اول اس سے بے پردہ ہی تو ہوئی تھی جب ہی تو تعلق ہوا۔
پردہ میں کوئی خرابی نہیں ہوسکتی۔ جہاں خرابی ہوتی ہے بے پردگی سے ہوتی ہے۔ جہاں خرابی ہوتی ہے وہاں پردہ ہی نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو محض نام کا ہوتا ہے۔ پردہ کے متعلق اکبر الہ آبادی نے خوب لکھا ہے ؎
کل بے حجاب چند نظر آئیں بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اس وقت پردہ اٹھانے کی تحریک کا ثمرہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عورتیں بے شرم و حیا ہوکر علانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور خاوندوں کے تصرف سے نکل کے عیش کو منغض کریں (تبسم کے ساتھ فرمایا) کہ ایک ظریف شخص سے پوچھا گیا کہ آپ پردہ توڑنے کی تحریک میں کیوں شریک نہیں ہوتے فرمایا بھائی اگر ہماری جوانی ہوتی تو ہم بھی شریک ہوجاتے اب یہ خیال ہے کہ تم بے پردگی سے مزے اڑائو اور ہم دیکھ دیکھ کر حسرت کریں۔

آپ کے فضل نے کام آساں کیا

خود کو رسمِ جہاں سے گریزاں کیا
توڑ کر ہمہ نے گھر اُن کو مہماں کیا
میری دیوانگی تو بہانہ بنی
آپ کے فضل نے کام آساں کیا
تیز ہوتا رہا دردِ دل دن بدن
آپ نے درد کا ایسا درماں کیا
آبلے روپڑے اور کہنے لگے
تونے شوقِ سفر ہم پہ احساں کیا
پھر ضیاء پاشیاں اُن کی مت پوچھئے
میں نے پلکوں پہ کیا اِک چراغاں کیا
زخمِ حسرت کی تائب جو لذت چکھی
عمر بھر دل نے کوئی نہ ارماں کیا

توبہ کی ضرورت

دورِ حاضر میں امّتِ مسلمہ ذلّت و رسوائی کے جس گڑھے میں گری ہوئی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ہے، ہم نے اللہ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ بظاہر تو ہم کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کو مانتے ہیں اسلامی شریعت کو مانتے ہیں مگر عمل ہمارا اس کے برعکس ہوتا ہے چاہے اجتماعی طور پر اس کا مشاہدہ کریں یا انفرادی ۔ آج ہم کافروں کے ہاتھوں اپنے اعمال کے باعث ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ ہم ہی ایسے ظالم اور ناشکرے ہیں کہ اپنے اللہ سے اور اس کے احکام سے منہ موڑ رکھا ہے اور دنیا کی ختم ہوجانے والی فانی اور نفسانی لذات میں محو ہوگئے ہیں اور اس میں اتنا مشغول ہوچکے ہیں کہ نہ صرف اپنے رحیم و کریم مالک کی نافرمانیاں کررہے ہیں بلکہ اس کے بندوں کے حقوق بھی غضب کرنے کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں ۔ خدارا غور کریں کہ آج ہم بے حسی کے کس مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ کتے کو بھی جہاں سے ایک وقت روٹی مل جائے تو وہ اْس در کا وفادار بن کر رہتا ہے۔ لیکن ہم نے کتنی وفا کی اپنے مالک سے جو ہمیں کھلا رہا ہے، پلا رہا ہے، سْلا رہا ہے، ان گنت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سب سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز آجائیں۔ وہ تو ایسا رحیم و کریم رب ہے کہ فرما رہا ہے ’’ اے میرے بندوں جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، خدا کی رحمت سے نااْمید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (زمر: ۵۳)۔ دیکھیں کہ کس محبت سے مالک اپنے نافرمان بندوں سے مخاطب ہے۔ اگر ہم اب بھی ایسے رب کو بھلا دیں تو ہم سے بڑا احسان فراموش اور کون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کیا اب بھی مومنوں کے لئے یہ وقت نہیں آیا کہ اْن کے دل خدا کی یاد سے نرم ہو جائیں۔‘‘(الحدید:۱۶)۔
آج ہم گناہوں اور فتنوں کی جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اْس سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے توبہ۔ اللہ رب العزّت کا ارشادِ ہے ’’مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا‘‘ (تحریم:۶۶)۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں اللہ تعالیٰ سے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔‘‘ اب ہم ذرا اپنی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ہمیں توبہ و استغفار کی کتنی ضرورت ہے‘ جبکہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم جن سے بڑھ کر کوئی نیک اور تقویٰ والا نہیں ہوسکتا وہ فرما رہے ہیں۔
توبہ سے روکنے کے لئے عام طور پر نفس جو کہ شیطان کا ایجنٹ ہے دو طرح کی پٹّی پڑھاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ابھی تو بڑی عمر پڑی ہے، ابھی توجوان ہیں، ابھی تو ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں، مزے کرو، بعد میں توبہ کر لیں گے۔ تو سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موت کے وقت کی کسے خبر ہے‘ ممکن ہے اگلے لمحے موت سر پر کھڑی ہو اور دوسرے توبہ کی توفیق بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ آج اگر دل میں توبہ کا خیال پیدا ہو رہا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا پیغام ہے۔ اس کو غنیمت جانیں اور آج ہی فوراً اس پر عمل کر لیں، کیا خبر کل یہ توفیق حاصل ہو یا نہ ہو۔
دوسری پٹی نفس یہ پڑھاتا ہے کہ تم نے تو اتنے گناہ کئے ہیں کہ تمہاری بخشش ہو ہی نہیں سکتی۔ یا تم گناہ تو چھوڑ نہیں سکتے اس لئے توبہ سے کوئی فائدہ نہیں۔ایک بات کا جواب تو ہمیں اس حدیثِ قدسی سے مل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’جو شخص ساری زمین بھر کر گناہ کر لے اور پھر میرے پاس آجائے بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کو اتنی ہی مغفرت عطا کروں گا جتنے اس کے گناہ تھے۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی‘‘۔
ابھی بھی وقت ہے آئیے ہم سب مل کر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں، اپنے اللہ کو راضی کر لیں۔ آج ہمیں چھوٹے بچوں سے سبق لینا چاہیے جنہیں کوئی بھی تکلیف پہنچے وہ صرف رونا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی سے ہمارا کام بنے گا۔ آج ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اپنے رب کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں اور توبہ کریں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ توبہ کے بعد دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ جتنے غلط کام ماضی میں کئے ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ یعنی جو فرائض واجبات، نمازیں، روزے، زکوٰۃ، رہ گئے ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں اور اگر کسی کی کوئی مالی یا جانی حق تلفی کی تو اس کا ازالہ کریں یا کسی کو ناحق تکلیف پہنچائی تو اْس سے معافی مانگیں۔ اور توبہ کے بعد پھر ہر قسم کے گناہ سے بچیں۔ اگر کبھی نادانی سے غلطی ہو جائے تو پھر فوراً توبہ کرلیں۔ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توبہ کی توفیق اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین

Wednesday, June 15, 2011

ایک وظیفہ ہرمسئلے کو حل کرنے کا

ہردعاکی قبولیت کا مجرب نسخہ۔۔۔۔۔۔۔
ترک گناہ،دعا،اور عمل کرتے رہنا،فرائض میں کوتاہی ہرگز نہ کرنا
یا اللہ تعالی سب کی ہرطرح کی پریشانی دور فرما
ہرگناہ سے توبہ کرنے کی توفیق نصیب فرما
ہرمسئلہ حل فرما
ہردعا قبول فرما
آمین۔۔۔ثم آمین


کسی بھی پریشانی میں صلوۃ حاجت ضرور پڑھیں اور روروکر دعاکریںپھر دیکھیں کس طرح عرش الہی کانپتاہے
اور ہرحال میں ہرگناہ سے الگ ہوجائیں اور توبہ تائب ہوجائیں ،کیونکہ گناہوں سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے پھر بندہ مارمارا پھرتاہے..ساتھ ساتھ استغفار کثرت سے کیا جائے
اور میرے پیارے شیخ عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم ایسے وقت میں تین وظیفے اپنے خلفاء مریدین،متعلقین اور سالکین وہر خاص وعام کوخاص طور پر بتاتے ہیں جو کہ الحمدللہ مجرب ہیں ذراکرکے تو دیکھیے
دوتو درج ذیل ہیں 


اس کے علاوہ یہ عمل بھی اسی طرح ہرنماز کے بعد سات مرتبہ اور جب دل کرے پڑھا جائے
یاحی یا قیوم برحمتک استغیث

Thursday, June 02, 2011

Test Post

AssalamuAlikum:
Mujeeb Mansoor presents its Personal Blog.