فرمایا کہ پردہ ایسی چیز ہے کہ اگر شریعت بھی نہ تجویز کرتی تب بھی فطری امر اور غیرت کا مقتضاء ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے ایک شخص نے شبہ کیا کہ پردہ کا ذکر کونسی آیت یا حدیث میں آیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ آپ جو سو دوسو کے نوٹ جاکٹ کی جو سب سے اندر کی جیب ہے اس میں رکھتے ہیں اور بڑی حفاظت کرتے ہیں یہ کونسی حدیث میں آیا ہے۔ کیا عورت کی قدر آپ کے نزدیک نوٹ کے برابر بھی نہیں ہے۔ افسوس ہر وز اس بے پردگی کی بدولت نئے نئے شرمناک واقعات سننے میں آتے ہیں مگر پھر بھی ہوش نہیں آتا۔ ابھی ایک اخبار میں دیکھا ہے کہ حیدرآباد میں ایک باغ عامہ ہے۔ وہاں ایک رئیس زادی زیب و زینت کے ساتھ ٹہل رہی تھی اسے بدمعاشوں نے چھیڑنا شروع کیا۔ وہ عورتوں کے غول کی طرف بھاگی وہاں بھی پناہ نہ ملی۔ تو پولیس نے بچایا۔ اور لیجئے ایک جینٹلمین جنہوں نے نیا نیا پردہ توڑا تھا وہ اپنی بیگم کو بغرض تفریح منصوری پہاڑ لے گئے اور تفریح کے لیے اس سڑک پر گئے جہاں بڑے بڑے آفیسر انگریزوں کے بنگلے تھے۔ وہاں ایک کوٹھی کے سامنے سے گزرے جو کسی بڑے افسر کی تھی اور تین گورے پہرے پر تھے ان کو دیکھ کر انہوں نے کچھ آپس میں گفتگو کی اور ایک ان میں سے چلا اور ان کی بیگم کا ان کے ہاتھ میں سے ہاتھ چھڑا کر ایک طرف لے گیا اور اسے خراب کرکے لے آیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے نے بھی یہی عمل کیا اور یہ اپنا سا منہ لے کے چلے آئے (جامع کہتا ہے کہ یہ شخص علاوہ بد دین ہونیکے حد درجہ بے غیرت بھی تھا جو ایسی بے غیرتی پر اف نہ کی دیندار ہوتا تو ان تینوں کو فنا فی النار کرکے خود جام شہادت پیتا) ہمارے حضرت نے مجمع کی طرف مخاطب ہوکے فرمایا۔ بس جی لوگوں کو شرم و غیرت نہیں رہی یہ تو شریعت کی رحمت ہے کہ اس کا بھی حکم دے دیا۔ باقی غیرت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ وہ تو ایک قسم کی محبوبہ ہوتی ہے۔ عاشق کب چاہتا ہے کہ میرے محبوب پر کوئی دوسرا نظر ڈالے۔ شاہ قلندر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎
غیرت از چشم برم روی تو دیدن ندہم
گوش رانیز حدیث توشنیدن ندہم
گریباید ملک الموت کہ جانم بیرد
تانہ بینم رخ توروح رمیدن ندہم
ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت پردہ میں بھی تو ایسے قصے ہوجاتے ہیں۔ پھر پردہ سے کیا فائدہ ہوا۔ فرمایا سبحان اﷲ جب اول تعلق ہوا ہے تو بے پردگی ہی سے ہوا ہے۔ وہ عورت اول اس سے بے پردہ ہی تو ہوئی تھی جب ہی تو تعلق ہوا۔
پردہ میں کوئی خرابی نہیں ہوسکتی۔ جہاں خرابی ہوتی ہے بے پردگی سے ہوتی ہے۔ جہاں خرابی ہوتی ہے وہاں پردہ ہی نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو محض نام کا ہوتا ہے۔ پردہ کے متعلق اکبر الہ آبادی نے خوب لکھا ہے ؎
کل بے حجاب چند نظر آئیں بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اس وقت پردہ اٹھانے کی تحریک کا ثمرہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عورتیں بے شرم و حیا ہوکر علانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور خاوندوں کے تصرف سے نکل کے عیش کو منغض کریں (تبسم کے ساتھ فرمایا) کہ ایک ظریف شخص سے پوچھا گیا کہ آپ پردہ توڑنے کی تحریک میں کیوں شریک نہیں ہوتے فرمایا بھائی اگر ہماری جوانی ہوتی تو ہم بھی شریک ہوجاتے اب یہ خیال ہے کہ تم بے پردگی سے مزے اڑائو اور ہم دیکھ دیکھ کر حسرت کریں۔